آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں اطلاع دے کر داخل ہوتے, اچانک نہ گھس جاتے کی لوگ بے خبری کے عالم میں ہوں, جب اندر پہنچتے تو سلام کرتے, جب کسی کے یہاں تشریف لے جاتے تو سیدھے دروازے کے سامنے نہ آجاتے بلکہ دائیں یا بائیں پہلو سے آتے اور فرماتے السلام علیکم, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تھی کہ جب مجلس میں آتے تو سلام کرتے اور جب جاتے تو سلام کرتے, ہمیشہ زبان سے جواب دیتے, ہاتھ یہ انگلی کے اشارے یاسر کی حرکت سے کبھی جواب نہ دیتے البتہ صلاۃ کی حالت میں ایثار ه سے جواب دیتے تھے, جب کوئی کسی دوسرے کا سلام آکر پہنچاتا تو سلام کرنے والے اور پہنچانے والے دونوں کو جواب دیتے تھے, جب آپ کو چھیک آتی تو منہ پر ہاتھ یا کپڑا رکھ لیتے جس سے یا تو آواز بلکل دب جاتی یا بہت کم ہوجاتی, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بستر پر سوتے, کبھی چٹائی پر کبھی چارپائی پر, کبھی زمین پر, بستر کے اندر کھجورکے ری سے بھرے ہوتے تھے, دائیں کروٹ پر لیٹتے, دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھتے, جب بیدار ہوتے تو مسواک کرتے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک بہت کثرت سے کیا کرتے تھے, دستور تھا کہ اول رات میں ہی سو جاتے اور پچھلے پہر سے پہلے اٹھ بیٹھتے اگر مسلمانوں کے کچھ کام راستے ہی میں کرنے کے ہوتے تو دیر میں سوتے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھی اگر قلب ہمیشہ بیدار رہتا تھا, اسی لیے جب سو جاتے تو کوئی نہ اٹھاتا یہاں تک کہ خود اٹھ جاتے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اچھے نام پسند فرماتے اور برے نام رکھنے سے روکتے تھے, اگر کوئی ناپسندیدہ نام ہوتا تو اسے تبدیل فرما دیا کرتے تھے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر کھڑے ہوکر بھی خطبہ دیا ہے, ممبر سے بھی اور اونٹ کے پیٹھ پر سے بھی, ہر خطبہ تقریر حمدوثنا سے سروخ کرتے تھے, خطبہ کبھی طویل ہوتا تھا کبہی مختصر, خطبہ دیتے وقت کبھی عصا پر ٹیک دیتے اور کبھی کمان پر, آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت فصیح اور شیریں بیان تھے, ٹھہر ٹھہر کر بولتے اور ایک ایک فقرہ اس طرح الگ الگ کرکے بولتے کہ موخاطب پوری طرح گفتگو یاد کر لیتا, اکثر جملہ کو تین مرتبہ دوہراتے تاکی خوب ذہن نشین ہو جائے, بلا ضرورت کبھی نہ بولتے, اکثر خاموش رہتے, الفاظ جچے تلے ہوتے تھے, مطلب سے ایک لفظ بھی کم زیادہ نہ ہوتا تھا, اگر کوئی بات ناگوار ہوتی تو چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا, بدخلقی سخت کلامی فحش گوئی اورسور غل سے آپ بہت دور تھے, ہنسی بس یہاں تک تھی کی لبوں پر مسکراہٹ ظاہر ہوجاتی, اگر بہت زیادہ ہستے تو باچھیں کھل جاتے, وہاں قہقہے نہ تھے, اسی طرح رونا بھی تھا, داڑھی مارنا یا حج کیوں سے رونا ہوتا تھا, صرف آنکھوں سے آنسو ٹپکاتے تھے, اگر بہت ہوا تو آنکھیں اشک بار ہو جاتی اور گر یہ کی آواز سینے سے نکلتی معلوم ہوتی, رات کی صلاۃ تہجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر رویا کرتے تھے, آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیز رفتارى سے چلتے تھے, ایسا معلوم ہوتا دھلوان پہاڑی سے اتر رہے ہیں, آپ جوتا پہن کے بھی چلتے اور برہنا پاؤں بھی, دستور تھا کی جب صحابہ رضی اللہ عنہا سات ہوتے تو انہیں آگے کر دیتے اورخود پیچھے چلتے, کمزوروں کو سہارا دیتے پیدل چلنے والو کو اپنے ساتھ سوار کر لیتے, ان کے حق میں دعا فرماتے, نثست میں بھی کچھ اہتمام نہ تھا, کبھی فرس پر بیٹھتے, کبھی چٹائی پر اور کبھی زمین ہی پر لیٹنے میں بھی کوئی خاص اہتمام نہ تھا,
No comments:
Post a Comment